نئی دہلی، 12/دسمبر (ایس او نیوز /ایجنسی) الٰہ آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس شیکھر یادو نے مسلمانوں کے خلاف دیے گئے متنازعہ بیان سے شدید تنازعہ پیدا کر دیا ہے۔ ان کے خلاف مختلف سطحوں پر کارروائی کا آغاز ہو چکا ہے۔ ایک جانب سپریم کورٹ نے الٰہ آباد ہائی کورٹ سے اس معاملے کی مکمل رپورٹ طلب کی ہے، تو دوسری جانب ان کے خلاف تحریک مواخذہ لانے کی تیاریاں جاری ہیں۔ کانگریس نے اس مقصد کے لیے باضابطہ مہم شروع کر دی ہے۔
جسٹس شیکھر یادو کو ہٹانے کے لیے کانگریس نے اراکین پارلیمنٹ کا دستخط لینا شروع کر دیا ہے۔ کانگریس رکن پارلیمنٹ وویک تنکھا نے بدھ کے روز جانکاری دی کہ اب تک راجیہ سبھا کے 30 سے زائد اراکین کے دستخط لیے جا چکے ہیں۔ انھوں نے یہ بھی بتایا کہ پارلیمنٹ کے موجودہ سرمائی اجلاس میں ہی تحریک مواخذہ کے لیے نوٹس دیا جائے گا۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ معاملہ (مسلم منافرت پر مبنی بیان دینا) سنگین ہے، یہی وجہ ہے کہ ہم پارلیمنٹ کے اسی اجلاس میں مواخذہ کے لیے نوٹس دیں گے۔
قابل ذکر ہے کہ جسٹس شیکھر یادو نے گزشتہ اتوار کو الٰہ آباد ہائی کورٹ میں وشو ہندو پریشد (وی ایچ پی) کی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے مسلمانوں کے تعلق سے کئی قابل اعتراض باتیں کہی تھیں۔ اس کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی، جس سے تنازعہ پیدا ہو گیا۔ کئی اپوزیشن لیڈران نے جسٹس شیکھر کے بیان پر اپنا سخت اعتراض ظاہر کیا ہے۔ راجیہ سبھا رکن اور سینئر وکیل کپل سبل نے تو 10 دسمبر کو ہی ایک بیان میں کہا تھا کہ اس معاملے میں تحریک مواخذہ کا نوٹس دیا جائے گا۔ انھوں نے کہا تھا کہ کوئی بھی جج اس طرح کا بیان دیتا ہے تو وہ اپنے عہدہ کے حلف کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ اگر وہ عہدہ کے حلف کی خلاف ورزی کر رہا ہے تو اسے اس کرسی پر بیٹھنے کا کوئی حق نہیں ہے۔
جہاں تک تحریک مواخذہ پیش کرنے کے اصول و ضوابط کا سوال ہے، تو قانون کے مطابق کسی بھی جج کے خلاف یہ کارروائی کی جا سکتی ہے۔ تحریک مواخذہ لانے کے لیے 100 لوک سبھا اراکین اور 50 راجیہ سبھا اراکین کی منظوری ضروری ہے۔ اس کے بعد ہی مواخذہ کے لیے نوٹس جاری کیا جائے گا۔